میں بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ شفقت نغمی کا ’’سات جنم‘‘ ایک بالکل مختلف ناول ہے۔ مختلف اور انوکھا۔ اس میں محض اور صرف ماجرا نویسی کا ہنر نہیں آزمایا گیا، بیانیے کو ایک خاص سطح پر برتا گیا ہے۔ جی، اُس سطح پر جہاں ایک جادو سا ہو جاتا ہے؛ حقیقت خواب میں اور خواب حقیقت میں بدل جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نہیں، بار بار ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ علاقہ چھچھ کے ایک گاؤں بہبودی کے ایک شخص محمد خان کی اس کے پرکھوں سے چلی آتی ایک کہانی ہے مگر جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے نہ تو بہبودی ایک گاؤں رہتا ہے نہ محمد خان محض ایک شخص؛ تاریخ، تہذیب، مذہب، سیاست، ہجرت، انسانی رویے سب کچھ کہانی کے اندر تحلیل ہو کر بھیدوں بھری زندگی کو نئے رخوں سے کھولنے لگتے ہیں۔ ناول کے متن کی پیشکش کا قرینہ بھی دلکش ہے۔ ایک باب سے دوسرے باب میں داخلے پر قاری کا استقبال کچھ اقتباسات سے ہوتا ہے؛ آسمانی صحائف سے، ادب و تاریخ کی کتب سے، کسی شاعر کی بیاض سے یا پھر کسی پلیٹ فارم پر چسپاں پوسٹر سے؛ اس حیلے سے وہ کہانی کا دائرہ وسیع کر لیتے ہیں۔ کہانی میں جولیا، سکندر اور جیسمین جیسے کردار آ کر تہذیبی تصادم اور مذہبی شدّت پسندی جیسے موضوعات کو لے آتے ہیں اور مرکزی کردار کے حکومتی باگ ڈور سنبھالنے سے یہاں کا سیاسی تماشا بھی اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ شفقت نغمی کے ہمہ جہت مطالعے، زندگی بھر کے تجربے اور باریک بیں مشاہدے نے بیانیے کے اندر رچ بس کر اسے بہت امیر اور دیالو بنا دیا ہے۔ بیانیے کی یہ تیکنیک، کہانی کے اندر واقعاتی ترتیب میں انسانی زندگی کے مضحک پہلوؤں کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور زبان کا لُطف ایسا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنے کلاوے میں بھر کر رکھتا ہے اور کہیں رکنے نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ شفقت نغمی کا پہلا ناول ہے مگر انھوں نے جست لگا کر کہیں آگے قدم رکھا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ ’’سات جنم‘‘ عام قاری اور فکشن کے خاص قاری، دونوں میں مقبول ہوگا۔ ✍🏻 محمد حمید شاہد
میں بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ شفقت نغمی کا ’’سات جنم‘‘ ایک بالکل مختلف ناول ہے۔ مختلف اور انوکھا۔ اس میں محض اور صرف ماجرا نویسی کا ہنر نہیں آزمایا گیا، بیانیے کو ایک خاص سطح پر برتا گیا ہے۔ جی، اُس سطح پر جہاں ایک جادو سا ہو جاتا ہے؛ حقیقت خواب میں اور خواب حقیقت میں بدل جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نہیں، بار بار ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ علاقہ چھچھ کے ایک گاؤں بہبودی کے ایک شخص محمد خان کی اس کے پرکھوں سے چلی آتی ایک کہانی ہے مگر جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے نہ تو بہبودی ایک گاؤں رہتا ہے نہ محمد خان محض ایک شخص؛ تاریخ، تہذیب، مذہب، سیاست، ہجرت، انسانی رویے سب کچھ کہانی کے اندر تحلیل ہو کر بھیدوں بھری زندگی کو نئے رخوں سے کھولنے لگتے ہیں۔ ناول کے متن کی پیشکش کا قرینہ بھی دلکش ہے۔ ایک باب سے دوسرے باب میں داخلے پر قاری کا استقبال کچھ اقتباسات سے ہوتا ہے؛ آسمانی صحائف سے، ادب و تاریخ کی کتب سے، کسی شاعر کی بیاض سے یا پھر کسی پلیٹ فارم پر چسپاں پوسٹر سے؛ اس حیلے سے وہ کہانی کا دائرہ وسیع کر لیتے ہیں۔ کہانی میں جولیا، سکندر اور جیسمین جیسے کردار آ کر تہذیبی تصادم اور مذہبی شدّت پسندی جیسے موضوعات کو لے آتے ہیں اور مرکزی کردار کے حکومتی باگ ڈور سنبھالنے سے یہاں کا سیاسی تماشا بھی اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ شفقت نغمی کے ہمہ جہت مطالعے، زندگی بھر کے تجربے اور باریک بیں مشاہدے نے بیانیے کے اندر رچ بس کر اسے بہت امیر اور دیالو بنا دیا ہے۔ بیانیے کی یہ تیکنیک، کہانی کے اندر واقعاتی ترتیب میں انسانی زندگی کے مضحک پہلوؤں کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور زبان کا لُطف ایسا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنے کلاوے میں بھر کر رکھتا ہے اور کہیں رکنے نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ شفقت نغمی کا پہلا ناول ہے مگر انھوں نے جست لگا کر کہیں آگے قدم رکھا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ ’’سات جنم‘‘ عام قاری اور فکشن کے خاص قاری، دونوں میں مقبول ہوگا۔ ✍🏻 محمد حمید شاہد